حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم چلنے کیلئے قدم اٹھاتے تو قوت سے پاﺅں اکھڑتا تھا اور قدم اس طرح رکھتے کہ آگے جھک پڑتا اور تواضع کے ساتھ قدم بڑھا کر چلتے۔ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا کہ گویا کسی بلندی سے پستی میں اتر رہے ہیں۔ (نشر الطیب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلنے کے انداز میں پاﺅں کے پنجوں پر وزن زیادہ پڑتا ہے۔ اس کے بے شمار فائدے ہیں۔ ڈاکٹر کلیم خان نے اس موضوع پر وسیع ریسرچ کی ہے۔ ان کے مطابق ٭ جو شخص اس انداز سے چلے گا وہ کبھی بھی جوڑوں کا مریض نہیں بن سکتا۔٭ پہلے اس انداز سے چلنے کی مشق کرے پھر چلنا شروع کرے۔ لمبے سفر میں تھکے گا نہیں۔ ٭ یورپین سیاحوں کی معلوماتی کتابوں میں یہ بات واضح ہے کہ اگر آپ کا سفر لمبا اور طویل ہے تو پاﺅں کے پنجوں پر وزن دو۔ قدرے جھک کر چلو، سفر طے ہوجائے گا۔ ٭اس انداز سے چلنے والے کی نگاہ تیز ہوتی ہے۔ ٭اعصابی کھچاﺅ اور بے چینی ختم ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ میرے تجربات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن کھلاڑیوں کو میں نے اس انداز سے چلنے اور دوڑنے کی تربیت دی ہے وہ ہر میدان میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ٭ مزید یہ کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چلا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کی سواری بھی کی لیکن علمائے حدیث لکھتے ہیں کہ کبھی سواری کی لگام تھام کر پیدل چلنا چاہیے۔ یعنی مقصد آدمی کا پیدل چلنا ہے۔ آج اس نعمت کو چھوڑ کر ہم پریشان ہیں ۔ تمام یورپ پیدل چلتا ہے اور مزید پیدل چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔
پاﺅں پہلے پیدا ہوا یا پہیہ؟
پیدل چلنا سنت ہے۔ ایک سنت چھوڑنے سے کیا کیا نقصانات ہوئے اور اس سلسلے میں جدید سائنس کیا کہتی ہے؟ میرے محترم والد صاحب پیدل چلنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب انہیں دیکھ کر کہنے لگے میں آپ کو پیدل دیکھتا ہوں اور اب آپ اتنی دور سے پیدل چل کر آرہے ہیں۔ اس کی وجہ؟ والد صاحب فرمانے لگے کہ پیدل چلنا صحت ہے۔ وہ صاحب بولے ہاں ہمارے ایک دوست دل کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ لاہور کے ہسپتال میں داخل ہوئے۔ وہاںکے ماہرین قلب نے کہا کہ آپ کراچی تشریف لے جائیں۔ وہ وہاں پہنچے، کچھ عرصہ علاج کیا لیکن وہاں کے ماہرین سے مرض کنٹرول نہ ہوا۔ انہوں نے بھی مشورہ دیا کہ آپ لندن علاج کیلئے تشریف لے جائیں وہ جب لندن پہنچے تو انہوں نے مکمل چیک اپ کے بعد فرمایا کہ اس مرض کا علاج امریکہ کا ایک کارڈک ہسپتال ہے، وہاں ہو گا۔مرتے کیا نہ کرتے، وہاں پہنچے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب اس ہسپتال کے مین گیٹ پر پہنچے تو اس گیٹ پر لکھا ہوا دیکھا کہ پاﺅں پہلے پیدا ہوا یا پہیہ؟ وہ وہاں علاج کراتے رہے لیکن خاطر خواہ افاقہ نہ ہوا۔ ماہرین قلب نے انہیں آخری اور اہم مشورہ یہی دیا کہ آپ پیدل چلیں یہی آپ کا علاج ہے۔
ظاہر ہے کہ پاﺅں پہلے پیدا ہوا ہے پہیہ تو بعد کی ایجاد ہے اور آج ہر جگہ وہیل یا پہیہ ہی ضرورت ہے۔ آج علاج معالجے کی طرف ہماری توجہ اللہ کی طرف توجہ کرنے سے بھی زیادہ ہے لیکن کبھی یہ بھی غور کیا کہ ہمارے امراض کا سبب کیا ہے ؟ایسے کونسے عوامل ہیں جن کے باعث ہم انواع و اقسام کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں اور یہ بات ہر آدمی تسلیم کرے گا کہ اس کی بنیادی وجہ بے عمل زندگی ہے۔ ایسی زندگی جس کے اندر پاﺅں کی حرکت کم اور وہیل کی حرکت زیادہ ہے۔ وہیل میں سائیکل سے لیکر کار تک حتیٰ کہ ہوائی جہاز تک کی مثال دی جا سکتی ہے۔
ایک بادشاہ ہر وقت تندرست اورتوانا رہتا تھا۔ ایک دن کسی دوسرے ملک کے بادشاہ سے جب اس کی ملاقات ہوئی تو اس بادشاہ نے اس کی صحت کا راز دریافت کیا تو بادشاہ نے کہا کہ دو حکیم ہر وقت میرا علاج کرتے رہتے ہیں اور وہ میرے پاﺅں ہیں۔ میں جب بھی پیدل چلتا ہوں تو میرے پاﺅں ہی حرکت میں آتے ہیں اس لیے جب ان میں حرکت پیدا ہوتی ہے تو تمام جسم آرام اور سکون کا محور بن جاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں